جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے
یادوں کے سیلاب میں جس دم میں گھر جاتا ہوں
دل دیوار ادھر جانے کی خواہش ہوتی ہے
خواب دیکھنے کی حسرت میں تنہائی میری
آنکھوں کی بنجر دھرتی میں نیندیں بوتی ہے
خود کو تسلی دینا کتنا مشکل ہوتا ہے
کوئی قیمتی چیز اچانک جب بھی کھوتی ہے
عمر سفر جاری ہے بس یہ کھیل دیکھنے کو
روح بدن کا بوجھ کہاں تک کب تک ڈھوتی ہے

غزل
جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے
شہریار