تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں
میرے جسم کے سارے علاقے جل تھل ہو جائیں
ہونٹ ندی سیلاب کا مجھ پہ دروازہ کھولے
ہم کو میسر ایسے بھی اک دو پل ہو جائیں
دشمن دھند ہے کب سے میری آنکھوں کے درپئے
ہجر کی لمبی کالی راتیں کاجل ہو جائیں
عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام
ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں
غزل
تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں
شہریار