EN हिंदी
تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں | شیح شیری
teri sansen mujh tak aate baadal ho jaen

غزل

تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں

شہریار

;

تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں
میرے جسم کے سارے علاقے جل تھل ہو جائیں

ہونٹ ندی سیلاب کا مجھ پہ دروازہ کھولے
ہم کو میسر ایسے بھی اک دو پل ہو جائیں

دشمن دھند ہے کب سے میری آنکھوں کے درپئے
ہجر کی لمبی کالی راتیں کاجل ہو جائیں

عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام
ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں