EN हिंदी
ساحر لدھیانوی شیاری | شیح شیری

ساحر لدھیانوی شیر

66 شیر

ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا

ساحر لدھیانوی




وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں

ساحر لدھیانوی




ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

ساحر لدھیانوی




وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ساحر لدھیانوی




یوں ہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا
تری یاد تو بن گئی اک بہانا

ساحر لدھیانوی




زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ساحر لدھیانوی




بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

ساحر لدھیانوی




گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

ساحر لدھیانوی




غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

ساحر لدھیانوی