EN हिंदी
سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں | شیح شیری
saza ka haal sunaen jaza ki baat karen

غزل

سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں

ساحر لدھیانوی

;

سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں
خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بات کریں

انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں
اس احتیاط سے کیا مدعا کی بات کریں

ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں
اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں

ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں

وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں