دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر لدھیانوی
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناؤ سال نو کے
ساحر لدھیانوی
دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا
آگے ہے عشق جرم و سزا کے مقام سے
ساحر لدھیانوی
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
ساحر لدھیانوی
چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محو یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
ساحر لدھیانوی
بے پئے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
without drinking, to abhor wine so
what is this if not igorant stupidity
ساحر لدھیانوی
ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت
دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم
ساحر لدھیانوی
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
ساحر لدھیانوی
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
ساحر لدھیانوی