EN हिंदी
ساحر لدھیانوی شیاری | شیح شیری

ساحر لدھیانوی شیر

66 شیر

ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں

ساحر لدھیانوی




ہر چند مری قوت گفتار ہے محبوس
خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی

ساحر لدھیانوی




ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

ساحر لدھیانوی




اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحر لدھیانوی




اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

ساحر لدھیانوی




اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے

ساحر لدھیانوی




جان تنہا پہ گزر جائیں ہزاروں صدمے
آنکھ سے اشک رواں ہوں یہ ضروری تو نہیں

countless calamities may this lonely soull befall
thse eyes shed copious tears is not a must at all

ساحر لدھیانوی




جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے

ساحر لدھیانوی




جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے
دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارہ دل ہی تو ہے

ساحر لدھیانوی