EN हिंदी
پروین شاکر شیاری | شیح شیری

پروین شاکر شیر

110 شیر

شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے

پروین شاکر




یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے

پروین شاکر




اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے

پروین شاکر




وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

پروین شاکر




وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی

پروین شاکر




وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

پروین شاکر




وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے

پروین شاکر




وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

پروین شاکر




زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

پروین شاکر