شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
پروین شاکر
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
پروین شاکر
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
پروین شاکر
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
پروین شاکر
وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی
پروین شاکر
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
پروین شاکر
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
پروین شاکر
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پروین شاکر
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
پروین شاکر