دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے
تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے
غزل
دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے
پروین شاکر