ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو
پروین شاکر
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
پروین شاکر
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
پروین شاکر
ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
پروین شاکر
گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اگائی ہو
پروین شاکر
گھر آپ ہی جگمگا اٹھے گا
دہلیز پہ اک قدم بہت ہے
پروین شاکر
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
پروین شاکر
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
پروین شاکر
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
پروین شاکر