سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
پروین شاکر
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
پروین شاکر
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
پروین شاکر
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
پروین شاکر
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
پروین شاکر
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
پروین شاکر
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
پروین شاکر
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
پروین شاکر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
پروین شاکر