EN हिंदी
پروین شاکر شیاری | شیح شیری

پروین شاکر شیر

110 شیر

بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی

پروین شاکر




چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

پروین شاکر




چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

پروین شاکر




دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے آج کدھر بھول پڑے وہ

پروین شاکر




دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی

پروین شاکر




دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے

پروین شاکر




دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

پروین شاکر




دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

پروین شاکر




ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

پروین شاکر