EN हिंदी
پروین شاکر شیاری | شیح شیری

پروین شاکر شیر

110 شیر

ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا

پروین شاکر




ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے

پروین شاکر




گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اگائی ہو

پروین شاکر




گھر آپ ہی جگمگا اٹھے گا
دہلیز پہ اک قدم بہت ہے

پروین شاکر




گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

پروین شاکر




غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

پروین شاکر




غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

پروین شاکر




ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

پروین شاکر




ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

پروین شاکر