EN हिंदी
پروین شاکر شیاری | شیح شیری

پروین شاکر شیر

110 شیر

رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے

پروین شاکر




شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے

پروین شاکر




شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

پروین شاکر




شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے

پروین شاکر




صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

پروین شاکر




سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

پروین شاکر




تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

پروین شاکر




تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے

پروین شاکر




تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو

پروین شاکر