رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
پروین شاکر
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
پروین شاکر
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
پروین شاکر
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
پروین شاکر
صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں
پروین شاکر
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
پروین شاکر
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
پروین شاکر
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
پروین شاکر
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
پروین شاکر