EN हिंदी
پروین شاکر شیاری | شیح شیری

پروین شاکر شیر

110 شیر

خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے

پروین شاکر




کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے

پروین شاکر




کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے

پروین شاکر




کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

پروین شاکر




کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پروین شاکر




کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

The news of our affinity has spread to every door
He welcomed me like fragrance which he did adore

پروین شاکر




کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

پروین شاکر




لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

پروین شاکر




میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

پروین شاکر