میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
پروین شاکر
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
پروین شاکر
مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
پروین شاکر
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
پروین شاکر
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
پروین شاکر
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
پروین شاکر
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
پروین شاکر
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
پروین شاکر
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
پروین شاکر