لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں
میر تقی میر
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
میر تقی میر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
breathe here softly as with fragility here all is fraught
in this workshop of the world where wares of glass are wrought
میر تقی میر
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
میر تقی میر
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
میر تقی میر
معرکہ گرم تو ہو لینے دو خوں ریزی کا
پہلے شمشیر کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے
میر تقی میر
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
میر تقی میر
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
میر تقی میر
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دئیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میر تقی میر