کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
میر تقی میر
کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی
میر تقی میر
کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر
میر تقی میر
کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
میر تقی میر
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
میر تقی میر
کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے
منہ ان نے اس طرف سے پھیرا ہے میرؔ کب کا
میر تقی میر
کیا جانوں چشم تر سے ادھر دل کو کیا ہوا
کس کو خبر ہے میرؔ سمندر کے پار کی
میر تقی میر
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
میر تقی میر
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
what can I say of love to thee
soul's ailment and calamity
میر تقی میر