EN हिंदी
درد دل کچھ کہا نہیں جاتا | شیح شیری
dard-e-dil kuchh kaha nahin jata

غزل

درد دل کچھ کہا نہیں جاتا

قائم چاندپوری

;

درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا

رو بہ رو میرے غیر سے تو ملے
یہ ستم تو سہا نہیں جاتا

جا ہے ماتم کو نت مرے دل میں
اس نگر سے دہا نہیں جاتا

شدت گریہ سے میں خون میں کب
سر سے پا تک نہا نہیں جاتا

ہر دم آنے سے میں بھی ہوں نادم
کیا کروں پر رہا نہیں جاتا

مانع گریہ کس کی خو ہے کہ آج
آنسوؤں سے بہا نہیں جاتا

گرچہ قائمؔ اسیر دام ہوں لیک
مجھ سے یہ چہچہا نہیں جاتا