درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
رو بہ رو میرے غیر سے تو ملے
یہ ستم تو سہا نہیں جاتا
جا ہے ماتم کو نت مرے دل میں
اس نگر سے دہا نہیں جاتا
شدت گریہ سے میں خون میں کب
سر سے پا تک نہا نہیں جاتا
ہر دم آنے سے میں بھی ہوں نادم
کیا کروں پر رہا نہیں جاتا
مانع گریہ کس کی خو ہے کہ آج
آنسوؤں سے بہا نہیں جاتا
گرچہ قائمؔ اسیر دام ہوں لیک
مجھ سے یہ چہچہا نہیں جاتا
غزل
درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
قائم چاندپوری