بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں
مجبوری کمال محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول جیے جا رہا ہوں میں
وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجیے
مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جا رہا ہوں میں
رخصت ہوئی شباب کے ہم راہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جیے جا رہا ہوں میں
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں
غزل
بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی