یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے
دل انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لب خاموش فطرت ہی لب گفتار ہو جائے
ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے
جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے
معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو اور چمن بے زار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
غزل
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جگر مراد آبادی