شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
جس قدر افسانۂ ہستی کو دہراتا ہوں میں
اور بھی بیگانۂ ہستی ہوا جاتا ہوں میں
جب مکان و لا مکاں سب سے گزر جاتا ہوں میں
اللہ اللہ تجھ کو خود اپنی جگہ پاتا ہوں میں
تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں
اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں
یک بہ یک گھبرا کے جتنی دور ہٹ آتا ہوں میں
اور بھی اس شوخ کو نزدیک تر پاتا ہوں میں
میری ہستی شوق پیہم میری فطرت اضطراب
کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں
ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے
مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں
میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا
جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں
حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے
اپنے ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں
تیری محفل تیرے جلوے پھر تقاضا کیا ضرور
لے اٹھا جاتا ہوں ظالم لے چلا جاتا ہوں میں
تا کجا یہ پردہ داری ہائے عشق و لاف حسن
ہاں سنبھل جائیں دو عالم ہوش میں آتا ہوں میں
میری خاطر اب وہ تکلیف تجلی کیوں کریں
اپنی گرد شوق میں خود ہی چھپا جاتا ہوں میں
دل مجسم شعر و نغمہ وہ سراپا رنگ و بو
کیا فضائیں ہیں کہ جن میں جل ہوا جاتا ہوں میں
تاکجا ضبط محبت تاکجا درد فراق
رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں
واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف
گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں
یا وہ صورت خود جہان رنگ و بو محکوم تھا
یا یہ عالم اپنے سائے سے دبا جاتا ہوں میں
دیکھنا اس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا
وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں
ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
غزل
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
جگر مراد آبادی