انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے
بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بہ در رہتے
مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے
غزل
انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
افتخار عارف