EN हिंदी
انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے | شیح شیری
inhin mein jite inhin bastiyon mein mar rahte

غزل

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے

افتخار عارف

;

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بہ در رہتے

مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے