روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے
زمیں کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے
جو حرف حق کی حمایت میں ہو وہ گم نامی
ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے
عجب نہیں کل اسی کی زبان کھینچی جائے
جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے
بس ایک خوف کہیں دل یہ بات مان نہ جائے
یہ خاک غیر ہمیں آشیاں سے اچھی ہے
ہم ایسے گل زدگاں کو بہار یک ساعت
نگار خانۂ عہد خزاں سے اچھی ہے
غزل
روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے
افتخار عارف