مرے ڈوب جانے کا باعث نہ پوچھو
کنارے سے ٹکرا گیا تھا سفینہ
حفیظ جالندھری
مرا تجربہ ہے کہ اس زندگی میں
پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں
حفیظ جالندھری
میری قسمت کے نوشتے کو مٹا دے کوئی
مجھ کو قسمت کے نوشتے نے مٹا رکھا ہے
حفیظ جالندھری
میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے
حفیظ جالندھری
مبادا پھر اسیر دام عقل و ہوش ہو جاؤں
جنوں کا اس طرح اچھا نہیں حد سے گزر جانا
حفیظ جالندھری
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
حفیظ جالندھری
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا
حفیظ جالندھری
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
حفیظ جالندھری
کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں
کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا
حفیظ جالندھری