کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا
مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا
برسر ساحل مراد یہاں
کوئی ابھرا ہے ناخدا کے سوا
کوئی بھی تو دکھاؤ منزل پر
جس کو دیکھا ہو رہ نما کے سوا
دل سبھی کچھ زبان پر لایا
اک فقط عرض مدعا کے سوا
کوئی راضی نہ رہ سکا مجھ سے
میرے اللہ تری رضا کے سوا
بت کدے سے چلے ہو کعبے کو
کیا ملے گا تمہیں خدا کے سوا
دوستوں کے یہ مخلصانہ تیر
کچھ نہیں میری ہی خطا کے سوا
مہر و مہ سے بلند ہو کر بھی
نظر آیا نہ کچھ خلا کے سوا
اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر
کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا
غزل
کوئی چارا نہیں دعا کے سوا
حفیظ جالندھری