احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
حفیظ جالندھری
ابھی میعاد باقی ہے ستم کی
محبت کی سزا ہے اور میں ہوں
حفیظ جالندھری
اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو
حفیظ جالندھری
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
حفیظ جالندھری
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
حفیظ جالندھری
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
حفیظ جالندھری
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
حفیظ جالندھری
خاموش ہو گئیں جو امنگیں شباب کی
پھر جرأت گناہ نہ کی ہم بھی چپ رہے
حفیظ جالندھری
کیسے بند ہوا مے خانہ اب معلوم ہوا
پی نہ سکا کم ظرف زمانہ اب معلوم ہوا
حفیظ جالندھری