EN हिंदी
ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے | شیح شیری
hai azal ki is ghalat baKHshi pe hairani mujhe

غزل

ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے

حفیظ جالندھری

;

ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے
عشق لافانی ملا ہے زندگی فانی مجھے

میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے

تھی یہی تمہید میرے ماتمی انجام کی
پھول ہنستے ہیں تو ہوتی ہے پشیمانی مجھے

حسن بے پردہ ہوا جاتا ہے یا رب کیا کروں
اب تو کرنی ہی پڑی دل کی نگہبانی مجھے

باندھ کر روز ازل شیرازۂ مرگ و حیات
سونپ دی گویا دو عالم کی پریشانی مجھے

پوچھتا پھرتا تھا داناؤں سے الفت کے رموز
یاد اب رہ رہ کے آتی ہے وہ نادانی مجھے