کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
آغاز مصیبت ہوتا ہے اپنے ہی دل کی شامت سے
آنکھوں میں پھول کھلاتا ہے تلووں میں کانٹے بوتا ہے
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
ملاحوں کو الزام نہ دو تم ساحل والے کیا جانو
یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے یہ کشتی کون ڈبوتا ہے
کیا جانیے یہ کیا کھوئے گا کیا جانئے یہ کیا پائے گا
مندر کا پجاری جاگتا ہے مسجد کا نمازی سوتا ہے
خیرات کی جنت ٹھکرا دے ہے شان یہی خودداری کی
جنت سے نکالا تھا جس کو تو اس آدم کا پوتا ہے
غزل
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
حفیظ جالندھری