اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا
یقینی ہے گھڑی دو میں مریض غم کا مر جانا
مجھے ڈر ہے گلوں کے بوجھ سے مرقد نہ دب جائے
انہیں عادت ہے جب آنا ضرور احسان دھر جانا
حباب آ سامنے سب ولولے جوش جوانی کے
غضب تھا قلزم امید کا چڑھ کر اتر جانا
یہاں جز کشتیٔ موج بلا کچھ بھی نہ پاؤ گے
اسی کے آسرے دریائے ہستی سے اتر جانا
مبادا پھر اسیر دام عقل و ہوش ہو جاؤں
جنوں کا اس طرح اچھا نہیں حد سے گزر جانا
حفیظؔ آغاز سے انجام تک رہزن نے پہنچایا
اسی کو ہم سفر پایا اسی کو ہم سفر جانا
غزل
اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا
حفیظ جالندھری