کمبخت دل برا ہوا تری آہ آہ کا
حسن نگاہ بھی نہ رہا گاہ گاہ کا
چھیڑو نہ میٹھی نیند میں اے منکر و نکیر
سونے دو بھائی میں تھکا ماندہ ہوں راہ کا
میرے مقلدوں کو مری راہ شوق میں
ہر گام پر نشان ملا سجدہ گاہ کا
دل سا گواہ حشر میں آ کر پھسل گیا
اب رحم پر معاملہ ہے داد خواہ کا
کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں
کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا
دل لینے والی بات اسی دل سے پوچھیے
مالک یہی ہے میرے سفید و سیاہ کا
پیش خدا چلو تو مزہ جب ہے اے حفیظؔ
نعرہ ہو لب پہ اشہد ان لا الہ کا
غزل
کمبخت دل برا ہوا تری آہ آہ کا
حفیظ جالندھری