جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں
حفیظ جالندھری
جیسے ویرانے سے ٹکرا کے پلٹتی ہے صدا
دل کے ہر گوشے سے آئی تری آواز مجھے
حفیظ جالندھری
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
حفیظ جالندھری
ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی
یہ مے ہے خودکشید اسے مسکرا کے پی
حفیظ جالندھری
الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا
کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے
حفیظ جالندھری
ہمیشہ کے لیے خاموش ہو کر
نئی طرز فغاں والے نے مارا
حفیظ جالندھری
ہم سے یہ بار لطف اٹھایا نہ جائے گا
احساں یہ کیجئے کہ یہ احساں نہ کیجئے
حفیظ جالندھری
آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے
حفیظ جالندھری
ہے مدعائے عشق ہی دنیائے مدعا
یہ مدعا نہ ہو تو کوئی مدعا نہ ہو
حفیظ جالندھری