EN हिंदी
فراق گورکھپوری شیاری | شیح شیری

فراق گورکھپوری شیر

95 شیر

دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز

فراق گورکھپوری




دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام
آدمی کو آدمی درکار ہے

فراق گورکھپوری




دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

فراق گورکھپوری




ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

فراق گورکھپوری




ایک رنگینی ظاہر ہے گلستاں میں اگر
ایک شادابی پنہاں ہے بیابانوں میں

فراق گورکھپوری




فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

فراق گورکھپوری




فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں

فراق گورکھپوری




غالبؔ او میرؔ مصحفیؔ
ہم بھی فراقؔ کم نہیں

فراق گورکھپوری




غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

فراق گورکھپوری