EN हिंदी
فراق گورکھپوری شیاری | شیح شیری

فراق گورکھپوری شیر

95 شیر

جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں

فراق گورکھپوری




جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری




جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

فراق گورکھپوری




اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات

فراق گورکھپوری




عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو
عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے

فراق گورکھپوری




عشق ابھی سے تنہا تنہا
ہجر کی بھی آئی نہیں نوبت

فراق گورکھپوری




عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما
حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے

فراق گورکھپوری




اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

فراق گورکھپوری




عنایت کی کرم کی لطف کی آخر کوئی حد ہے
کوئی کرتا رہے گا چارۂ زخم جگر کب تک

فراق گورکھپوری