کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراق گورکھپوری
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
فراق گورکھپوری
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
فراق گورکھپوری
آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
we came to the tavern all gay and frolicsome
now having drunk the wine, somber have become
فراق گورکھپوری
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
فراق گورکھپوری
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
فراق گورکھپوری
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
فراق گورکھپوری
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
فراق گورکھپوری
اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات
فراق گورکھپوری