کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات
جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا
ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد
تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں
اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی
اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم
صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا
خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو
داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم
باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا
ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے
بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو
کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ
مہرباں نامہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
غزل
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
فراق گورکھپوری