عشق ابھی سے تنہا تنہا
ہجر کی بھی آئی نہیں نوبت
فراق گورکھپوری
آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
we came to the tavern all gay and frolicsome
now having drunk the wine, somber have become
فراق گورکھپوری
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
فراق گورکھپوری
عنایت کی کرم کی لطف کی آخر کوئی حد ہے
کوئی کرتا رہے گا چارۂ زخم جگر کب تک
فراق گورکھپوری
اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
فراق گورکھپوری
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
فراق گورکھپوری
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
فراق گورکھپوری
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
فراق گورکھپوری
غالبؔ او میرؔ مصحفیؔ
ہم بھی فراقؔ کم نہیں
فراق گورکھپوری