دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا نہ تمہارا نکلا
تیرا نام آتے ہی سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح یہ مذکور دوبارا نکلا
ہوش جاتا ہے جگر جاتا ہے دل جاتا ہے
پردے ہی پردے میں کیا تیرا اشارا نکلا
ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا
کتنے سفاک سر قتل گہہ عالم تھے
لاکھوں میں بس وہی اللہ کا پیارا نکلا
عبرت انگیز ہے کیا اس کی جواں مرگی بھی
ہائے وہ دل جو ہمارا نہ تمہارا نکلا
عشق کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا
سر بہ سر بے سر و ساماں جسے سمجھے تھے وہ دل
رشک جمشید و کے و خسرو و دارا نکلا
عقل کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا
رونے والے ہوئے چپ ہجر کی دنیا بدلی
شمع بے نور ہوئی صبح کا تارا نکلا
انگلیاں اٹھیں فراقؔ وطن آوارہ پر
آج جس سمت سے وہ درد کا مارا نکلا
غزل
دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا
فراق گورکھپوری