زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا
یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا
داستان جور بے حد خون سے لکھتا رہا
قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا
عشق تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں
اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا
میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو
زیب عنوان حدیث دیگراں بنتا گیا
بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں
نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا
ہم کو ہے معلوم سب روداد علم و فلسفہ
ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا
میں کتاب دل میں اپنا حال غم لکھتا رہا
ہر ورق اک باب تاریخ جہاں بنتا گیا
بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں
جو سکوت راز رنگیں داستاں بنتا گیا
میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں
وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا
واردات دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے
ہر حساب غم حساب دوستاں بنتا گیا
میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں
جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتا گیا
وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے
ایک تیرا غم کہ گنج شائیگاں بنتا گیا
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا
غزل
زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا
فراق گورکھپوری