سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
فراق گورکھپوری
شامیں کسی کو مانگتی ہیں آج بھی فراقؔ
گو زندگی میں یوں مجھے کوئی کمی نہیں
فراق گورکھپوری
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
فراق گورکھپوری
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں
فراق گورکھپوری
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
فراق گورکھپوری
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
فراق گورکھپوری
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
فراق گورکھپوری
غالبؔ او میرؔ مصحفیؔ
ہم بھی فراقؔ کم نہیں
فراق گورکھپوری
فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں
فراق گورکھپوری