EN हिंदी
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں | شیح شیری
kami na ki tere wahshi ne KHak uDane mein

غزل

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں

فراق گورکھپوری

;

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں

فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں

جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں
فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں

وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر
وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں

وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں

یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں
نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں

بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا
فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں

کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں

اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم
جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں

وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر
وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں

بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا
فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن
فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قیدخانے میں