نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے
فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا
دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ
تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا
نثار نرگس مے گوں کہ آج پیمانے
لبوں تک آئے ہوئے تھرتھرائے ہیں کیا کیا
وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی
جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا
چراغ طور جلے آئنہ در آئینہ
حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا
بقدر ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر
نگاہ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد
خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا
فسون غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا
ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں
چمن میں غنچۂ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا
ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا
سلوک اچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا
نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے
دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا
پیام حسن پیام جنوں پیام فنا
تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
تمام حسن کے جلوے تمام محرومی
بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا
فراقؔ راہ وفا میں سبک روی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
غزل
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
فراق گورکھپوری