منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
کس جگہ آنکھ لڑی ہائے کہاں دل آیا
ہم نہ کہتے تھے نہ کر عشق پشیماں ہوگا
جو کیا تو نے وہ آگے ترے اے دل آیا
قہقہے قلقل مینا نے لگائے کیا کیا
مجھ کو مستی میں جو رونا سر محفل آیا
قتل کی سن کے خبر عید منائی میں نے
آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا
تا دم مرگ نہ ہو وہ مرے دشمن کو نصیب
جو مزا مجھ کو الٰہی دم بسمل آیا
مرقد قیس پر اب تک بھی تو خار صحرا
انگلیوں سے یہ بتاتے ہیں وہ محمل آیا
گنج قاروں کے سوا بھی ہے عدم میں سب کچھ
ہائے دنیا میں نہ اس ملک کا حاصل آیا
جس نے کچھ ہوش سنبھالا وہ جواں قتل ہوا
عہد پیری نہ ترے عہد میں قاتل آیا
دین و دنیا سے گیا تو یہ سمجھ لے اے داغؔ
غضب آیا اگر اس بت پہ ترا دل آیا
غزل
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
داغؔ دہلوی