EN हिंदी
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا | شیح شیری
sar jhukaoge to patthar dewta ho jaega

غزل

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

بشیر بدر

;

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا

ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا

کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا

میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں اگر ہوگا دوا ہو جائے گا

سب اسی کے ہیں ہوا خوشبو زمین و آسماں
میں جہاں بھی جاؤں گا اس کو پتہ ہو جائے گا