سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں اگر ہوگا دوا ہو جائے گا
سب اسی کے ہیں ہوا خوشبو زمین و آسماں
میں جہاں بھی جاؤں گا اس کو پتہ ہو جائے گا
غزل
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
بشیر بدر