جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذن کے لیے
غزل
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
امیر مینائی