EN हिंदी
ملت شیاری | شیح شیری

ملت

36 شیر

فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے

احمد فراز




تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا

احمد مشتاق




یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

احمد مشتاق




زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے

احمد راہی




گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

امیر مینائی




جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی

اسعد بدایونی




مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی

بشیر بدر