کہا تھا کس نے کہ عہد وفا کرو اس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے
نصیب پھر کوئی تقریب قرب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں ہوں وہی باتیں کہا کرو اس سے
یہ اہل بزم تنک حوصلہ سہی پھر بھی
ذرا فسانۂ دل ابتدا کرو اس سے
یہ کیا کہ تم ہی غم ہجر کے فسانے کہو
کبھی تو اس کے بہانے سنا کرو اس سے
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
غزل
کہا تھا کس نے کہ عہد وفا کرو اس سے
احمد فراز