آنے لگے ہیں وہ بھی عیادت کے واسطے
اے چارہ گر مریض کو اچھا کیا نہ جائے
حمید جالندھری
بھولی نہیں اجڑے ہوئے گلشن کی بہاریں
ہاں یاد ہیں وہ دن کہ ہمارا بھی خدا تھا
حمید جالندھری
ہوئی مدت کہ ان کو خواب میں بھی اب نہیں دیکھا
میں جن گلیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا تھا
حمید جالندھری
کس شان سے گئے ہیں شہیدان کوئے یار
قاتل بھی ہاتھ اٹھا کے شریک دعا ہوئے
حمید جالندھری
پھر گئی اک اور ہی دنیا نظر کے سامنے
بیٹھے بیٹھے کیا بتاؤں کیا مجھے یاد آ گیا
حمید جالندھری
سینے میں راز عشق چھپایا نہ جائے گا
یہ آگ وہ ہے جس کو دبایا نہ جائے گا
حمید جالندھری
ان کی جفاؤں پر بھی وفا کا ہوا گماں
اپنی وفاؤں کو بھی فراموش کر دیا
حمید جالندھری