EN हिंदी
کبھی اپنوں کی یورش تھی کبھی غیروں کا ریلا تھا | شیح شیری
kabhi apnon ki yurish thi kabhi ghairon ka rela tha

غزل

کبھی اپنوں کی یورش تھی کبھی غیروں کا ریلا تھا

حمید جالندھری

;

کبھی اپنوں کی یورش تھی کبھی غیروں کا ریلا تھا
ترے ملنے کی خاطر ہم نے کیا کیا دکھ نہ جھیلا تھا

مرے احباب کیا بے وقت میرے پاس آ بیٹھے
گھٹا گھنگھور تھی وہ اپنے کمرے میں اکیلا تھا

ہمارا شام تنہائی میں پرساں ہی نہ تھا کوئی
وہ جس محفل میں جاتے تھے وہیں یاروں کا میلا تھا

محبت کی جنوں انگیزیوں سے ہم بھی واقف ہیں
جوانی میں جوانو ہم نے بھی یہ کھیل کھیلا تھا

ادھر وہ تھے کہ تھی اک دولت بیدار پاس ان کے
ادھر ہم تھے کہ اپنی جیب میں پیسہ نہ ڈھیلا تھا

ہوئی مدت کہ ان کو خواب میں بھی اب نہیں دیکھا
میں جن گلیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا تھا

جوانی میں ہماری تند خوئی ایک آفت تھی
ہمارے دم سے ہر محفل میں جھگڑا تھا جھمیلا تھا

حمیدؔ اس چاہ غم سے آج تک باہر نہیں آیا
عزیزوں نے اسے مدت ہوئی جس میں ڈھکیلا تھا