اے دوست درد دل کا مداوا کیا نہ جائے
وعدہ اگر کیا ہے تو ایفا کیا نہ جائے
آنے لگے ہیں وہ بھی عیادت کے واسطے
اے چارہ گر مریض کو اچھا کیا نہ جائے
مجبوریوں کے راز نہ کھل جائیں بعد مرگ
قاتل ہمارے قتل کا چرچا کیا نہ جائے
آئے گی اپنے لب پہ تو ہوگی پرائی بات
لازم ہے راز دل کبھی افشا کیا نہ جائے
وہ خود ہی جان لیں گے مرے دل کا مدعا
بہتر یہی ہے عرض تمنا کیا نہ جائے
غزل
اے دوست درد دل کا مداوا کیا نہ جائے
حمید جالندھری