کس وہم میں اسیر ترے مبتلا ہوئے
کب اہل شوق دام وفا سے رہا ہوئے
آزاد ہو کے اور بھی بے دست و پا ہوئے
کس درد لا علاج میں ہم مبتلا ہوئے
منڈلا رہے تھے جن کے سروں پر کلاغ و بوم
وہ فیضیاب سایۂ بال ہما ہوئے
دل دادگان بادیۂ صرصر و سموم
شہزادگان ملک نسیم و صبا ہوئے
کرتے نہ تھے جو ساحل و دریا میں امتیاز
کشتی بھنور میں آئی تو وہ ناخدا ہوئے
رستہ دکھا سکا نہ جنہیں نور آفتاب
جلنے لگے چراغ تو وہ رہنما ہوئے
پا مردئ یقیں سے جو محروم ہیں وہ لوگ
اپنے رفیق راہ ہوئے بھی تو کیا ہوئے
کس شان سے گئے ہیں شہیدان کوئے یار
قاتل بھی ہاتھ اٹھا کے شریک دعا ہوئے
یکسانئ حیات سے گھبرا گیا ہے دل
مدت گزر گئی کوئی طوفاں بپا ہوئے
کوشش تھی فرض ہم نے بھی کی لیکن اس کے بعد
اپنے تمام کام سپرد خدا ہوئے
غزل
کس وہم میں اسیر ترے مبتلا ہوئے
حمید جالندھری