کل شام لب بام جو وہ جلوہ نما تھا
کس شوق سے میں دور کھڑا دیکھ رہا تھا
جب دوست بھی دشمن کا طرف دار ہوا تھا
ٹھنکا تھا اسی دن سر محفل مرا ماتھا
گونجا ہوا اک نغمہ سر ارض و سما تھا
نغمہ تھا کہ بیتی ہوئی صدیوں کی صدا تھا
بھولی نہیں اجڑے ہوئے گلشن کی بہاریں
ہاں یاد ہیں وہ دن کہ ہمارا بھی خدا تھا
ہر برگ سے آتی تھی گل و لالہ کی خوشبو
ہر موج ہوا میں نفس یار گھلا تھا
تاثیر بدامن تھیں جوانی کی دعائیں
ہر آہ اثر خیز تھی ہر نالہ رسا تھا
جھپکی تھی ذرا آنکھ کہ برہم ہوئی محفل
ہم نے ابھی کچھ ان سے کہا تھا نہ سنا تھا
جس بات کا اظہار تھا اظہار حقیقت
دیکھا تو اسی بات پہ ہنگامہ بپا تھا
وہ درپئے آزار ہیں احباب مخالف
یہ دن بھی غریبوں کے مقدر میں لکھا تھا
کیا دیکھ لیا آج کہ جی سوچ رہا ہے
یہ واقعہ یوں ہی کبھی پہلے بھی ہوا تھا
ہم بزم سے جائیں گے تو احباب کہیں گے
اک شاعر آوارہ یہاں نغمہ سرا تھا
بیگانہ وشی کم نہ ہوئی آپ کی اس سے
ہر چند حمیدؔ آپ کا پابند وفا تھا
غزل
کل شام لب بام جو وہ جلوہ نما تھا
حمید جالندھری