EN हिंदी
حفیظ جالندھری شیاری | شیح شیری

حفیظ جالندھری شیر

79 شیر

آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے

حفیظ جالندھری




آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر

حفیظ جالندھری




آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

حفیظ جالندھری




آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا

حفیظ جالندھری




اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو

حفیظ جالندھری




ابھی میعاد باقی ہے ستم کی
محبت کی سزا ہے اور میں ہوں

حفیظ جالندھری




احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے

حفیظ جالندھری




اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری




اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر
کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا

حفیظ جالندھری