دل بے مدعا ہے اور میں ہوں
مگر لب پر دعا ہے اور میں ہوں
نہ ساقی ہے نہ اب وہ شے ہے باقی
مرا دور آ گیا ہے اور میں ہوں
ادھر دنیا ہے اور دنیا کے بندے
ادھر میرا خدا ہے اور میں ہوں
کوئی پرساں نہیں پیر مغاں کا
فقط میری وفا ہے اور میں ہوں
ابھی میعاد باقی ہے ستم کی
محبت کی سزا ہے اور میں ہوں
نہ پوچھو حال میرا کچھ نہ پوچھو
کہ تسلیم و رضا ہے اور میں ہوں
یہ طول عمر نامعقول و بے کیف
بزرگوں کی دعا ہے اور میں ہوں
لہو کے گھونٹ پینا اور جینا
مسلسل اک مزا ہے اور میں ہوں
حفیظؔ ایسی فلاکت کے دنوں میں
فقط شکر خدا ہے اور میں ہوں
غزل
دل بے مدعا ہے اور میں ہوں
حفیظ جالندھری